تفسير ابن كثير



سورۃ هود

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ[80] قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ[81]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس نے کہا کاش! میرے پاس تمھارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ [80] انھوں نے کہا اے لوط! بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، یہ ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ پائیں گے، سو اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر چل نکل اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے مگر تیری بیوی۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس پر وہی مصیبت آنے والی ہے جو ان پر آئے گی۔ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا صبح واقعی قریب نہیں۔ [81]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] لوط ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا [80] اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے واﻻ ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں [81]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] لوط نے کہا اے کاش مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا [80] فرشتوں نے کہا کہ لوط ہم تمہارے پروردگار کے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے پھر کر نہ دیکھے۔ مگر تمہاری بیوی کہ جو آفت ان پر پڑنے والی ہے وہی اس پر پڑے گی۔ ان کے (عذاب کے) وعدے کا وقت صبح ہے۔ اور کیا صبح کچھ دور ہے؟ [81]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 80، 81،

لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوتا ہے ٭٭

لوط علیہ السلام نے جب دیکھا کہ میری نصیحت ان پر اثر نہیں کرتی تو انہیں دھمکایا کہ اگر مجھ میں قوت، طاقت ہوتی یا میرا کنبہ، قبیلہ زور دار ہوتا تو میں تمہیں تمہاری اس شرارت کا مزہ چکھا دیتا۔‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ اللہ کی رحمت ہو لوط علیہ السلام پر کہ وہ زور آور قوم کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ مراد اس سے ذات اللہ تعالیٰ عزوجل ہے۔ آپ علیہ السلام کے بعد پھر جو پیغمبر بھیجا گیا وہ اپنے آبائی وطن میں ہی بھیجا گیا ۔ [صحیح بخاری:3372] ‏‏‏‏

ان کی اس افسردگی، کامل ملال اور سخت تنگ دلی کے وقت فرشتوں نے آپ علیہ السلام کو ظاہر کر دیا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہم تک یا آپ علیہ السلام تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ آپ علیہ السلام رات کے آخری حصے میں اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جائیے خود ان سب کے پیچھے رہیے۔ اور سیدھے اپنی راہ چلے جائیں قوم والوں کی آہ و بکا پر ان کے چیخنے چلانے پر تمہیں مڑ کر بھی نہ دیکھا چاہیئے۔ پھر اس اثبات سے لوط کی بیوی کا استثنا کر لیا کہ وہ اس حکم کی پابندی نہ کر سکے گی۔ وہ عذاب کے وقت قوم کی ہائے وائے سن کر مڑ کر دیکھے گی۔ اس لیے کہ رحمانی قضاء میں اس کا بھی ان کے ساتھ ہلاک ہونا طے ہو چکا ہے۔ ایک قرأت میں «إِلَّا امْرَأَتَكَ» ت کے پیش سے بھی ہے۔

جن لوگوں کے نزدیک پیش اور زبر دونوں جائز ہیں، ان کا بیان ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیوی بھی یہاں سے نکلنے میں آپ علیہ السلام کے ساتھ تھی لیکن عذاب کے نازل ہونے پر قوم کا شور سن کر صبر نہ کر سکی اور مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور زبان سے نکل گیا کہ ہائے میری قوم۔ اسی وقت آسمان سے ایک پتھر اس پر بھی آیا اور وہ ڈھیر ہو گئی۔

لوط علیہ السلام کی مزید تشفی کے لیے فرشتوں نے اس خبیث قوم کی ہلاکت کا وقت بھی بیان کر دیا کہ یہ صبح ہوتے ہی تباہ ہو جائے گی۔ اور صبح اب بالکل قریب ہے۔
3893

یہ کور باطن آپ علیہ السلام کا گھر گھیرے ہوئے تھے اور ہر طرف سے لپکتے ہوئے آ پہنچے تھے۔ آیت میں ہے «وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ وَلَقَدْ صَبَّحَهُم بُكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ» [54-القمر:37-39] ‏‏‏‏ یعنی ” اور ان سے ان کے مہمانوں کو لے لینا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں سو (‏‏‏‏اب) میرے عذاب اور ڈرانے کے مزے چکھو، اور ان پر صبح سویرے ہی اٹل عذاب آ نازل ہوا، تو اب میرے عذاب اور ڈرانے کے مزے چکھو “۔

لوط علیہ السلام دروازے پر کھڑے ہوئے ان لوطیوں کو روک رہے تھے، جب کسی طرح وہ نہ مانے اور جب لوط علیہ السلام آزردہ خاطر ہو کر تنگ آ گئے اس وقت جبرائیل علیہ السلام گھر میں سے نکلے اور ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں۔

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خود ابراہیم علیہ السلام بھی ان لوگوں کے پاس آتے، انہیں سمجھاتے کہ دیکھو اللہ کا عذاب نہ خریدو مگر انہوں نے خلیل الرحمن علیہ السلام کی بھی نہ مانی۔ یہاں تک کہ عذاب کے آنے کا قدرتی وقت آ پہنچا۔

فرشتے لوط علیہ السلام کے پاس آئے۔ آپ علیہ السلام اس وقت اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ آج کی رات ہم آپ علیہ السلام کے مہمان ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام کو فرمان رب ہو چکا تھا کہ جب تک لوط علیہ السلام تین مرتبہ ان کی بدچلنی کی شہادت نہ دے لیں۔ ان پر عذاب نہ کیا جائے۔ آپ علیہ السلام جب انہیں لے کر چلے تو چلنے کی خبر دی کہ یہاں کے لوگ بڑے بد ہیں یہ برائی ان میں گھسی ہوئی ہے۔ کچھ دور اور جانے کے بعد دوبارہ کہا کہ کیا تمہیں اس بستی کے لوگوں کی برائی کی خبر نہیں؟ میرے علم میں تو روئے زمین پر ان سے زیادہ برے لوگ نہیں، آہ میں تمہیں کہاں لے جاؤں؟ میری قوم تو تمام مخلوق سے بدتر ہے۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے فرشتوں سے کہا دیکھو دو مرتبہ یہ کہہ چکے۔ جب انہیں لے کر آپ علیہ السلام اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو رنج افسوس سے رو دئیے اور کہنے لگے میری قوم تمام مخلوق سے بدتر ہے۔
3894

تمہیں کیا معلوم نہیں کہ یہ کس بدی میں مبتلا ہیں؟ روئے زمین پر کوئی بستی اس بستی سے بری نہیں۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے پھر فرشتوں سے فرمایا دیکھو تین مرتبہ یہ اپنی قوم کی بدچلنی کی شہادت دے چکے ہیں۔ یاد رکھنا اب عذاب ثابت ہو چکا ہے۔ گھر میں گئے اور یہاں سے آپ علیہ السلام کی بڑھیا بیوی اونچی جگہ پر چڑھ کر کپڑا ہلانے لگی جسے دیکھتے ہی بستی کے بدکار دوڑے پڑے۔

پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں میں نے تو ان سے زیادہ خوبصورت اور ان سے زیادہ خوشبو والے لوگ کبھی دیکھے ہی نہیں۔ اب کیا تھا یہ خوشی خوشی مٹھیاں بند کئے دوڑتے بھاگتے لوط کے گھر گئے۔ چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا۔ آپ نے انہیں قسمیں دیں، پند و نصائح کئے، فرمایا کہ عورتیں بہت ہیں۔‏‏‏‏ لیکن وہ اپنی شرارت اور اپنے بد ارادے سے باز نہ آئے۔

اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان کے عذاب کی اجازت چاہی اللہ کی جانب سے اجازت مل گئی۔ آپ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے۔ آپ کے دو پر ہیں۔ جن پر موتیوں کا جڑاؤ ہے۔ آپ کے دانت صاف چمکتے ہوئے ہیں۔ آپ کی پیشانی اونچی اور بڑی ہے۔ مرجان کی طرح کے دانت ہیں لؤلؤ ہیں اور آپ کے پاؤں سبزی کی طرح ہیں۔

لوط علیہ السلام سے آپ نے فرما دیا کہ ہم تو تیرے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، یہ لوگ تجھ تک پہنچ نہیں سکتے۔ آپ اس دروازے سے نکل جایئے۔‏‏‏‏ یہ کہہ کر ان کے منہ پر اپنا پر مارا جس سے وہ اندھے ہو گئے۔ راستوں تک کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ لوط علیہ السلام اپنی اہل کے لے کر راتوں رات چل دیئے یہ اللہ کا حکم بھی تھا۔ محمد بن کعب، قتادہ، سدی رحمہ اللہ علیہم وغیر کا یہی بیان ہے۔
3895



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.